جمعے کے روز اٹلی اسپین اور فرانس نے یمن میں حوثی گروپ کے خلاف امریکی اور برطانوی حملوں میں حصہ نہ لینےکا اعلان کیا ہے۔ ان تینوں ممالک نے حوثیوں کے خلاف حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے دس ممالک کی طرف سے جاری مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سےبھی انکار کردیا۔
اس اختلاف نے مغرب میں حوثیوں سے نمٹنے کے بارے میں اختلافات کو اجاگر کیا ہے، جو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی مہم کے خلاف احتجاج کے طور پر بحیرہ احمر میں کئی ہفتوں سے کمرشل جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں ، بحری جہازوں اور آبدوزوں سے دنیا کے مصروف ترین تجارتی بحری راستوں میں سے ایک پر حوثیوں کے بار بار حملوں کے جواب جمعہ کی صبح میں درجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔
امریکی حکام نے کہا کہ ہالینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور بحرین نے آپریشن کے لیے لاجسٹک اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی تھی۔
جرمنی، ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا نے ان چھ ممالک کے ساتھ ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں جس میں حملوں کا دفاع کیا گیا ہے اور دھمکی دی گئی ہے کہ اگر حوثی پیچھے نہ ہٹے تو بحیرہ احمر کی تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے تحفظ کے لیے دیگر اقدامات کریں گے۔
اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی کے دفتر کے ایک ذریعے نے بتایا کہ اٹلی نے اس بیان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے حوثیوں کے خلاف حملے میں حصہ لینے کے لیے نہیں کہا گیا۔
تاہم ایک حکومتی ذریعے نے بتایا کہ اٹلی کو شرکت کے لیے کہا گیا تھا، لیکن اس نے دو وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا جن میں سے پہلی یہ تھی کہ اس میں شمولیت کے لیے اطالوی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ہوگی۔ دوسرا یہ کہ روم بحیرہ احمر میں "امن” کی پالیسی پر چلنا چاہتا ہے۔
ایک فرانسیسی اہلکار نے کہا کہ پیرس کو خدشہ ہے کہ امریکی قیادت میں ہونے والے حملوں میں حصہ لینے سے لبنانی حزب اللہ گروپ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت میں اس کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔