آٹھ فروری کے عام انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے امیدواران میں ایک بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’ہم نے دوبارہ ون یونٹ بنانے اور سلیکٹڈ راج کے تسلسل کی سازش ناکام بنائی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سوچا ہی نہیں کہ جب ہم کابل جا کر چائے پی رہے تھے کہ ہمارے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو کیا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔‘
نوڈیرو میں تقریب سے خطاب کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول نے کہا کہ ’سلیکٹڈ راج کو ہم نے پہلے دن ہی پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا تھا۔ ہم تب سے آپ کی جدوجہد لڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی جمہوریت، 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر یقین رکھتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ان قوتوں کا مقابلہ کیا جو آپ کے حق پر ڈاکا مارنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے ان کی ون یونٹ دوبارہ بنانے اور سلیکٹڈ راج کے تسلسل کی سازش کو ناکام کروایا۔ پیپلز پارٹی ہر دور میں آئین، جمہوری نظام کا دفاع کرتی آئی ہے۔ جیالوں نے سلیکٹڈ راج کا مقابلہ کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں ایک طرف معاشی بحران تو دوسری طرف معاشرے میں بحران پیدا کیا گیا، سیاست میں سیاسی بحران ہے اور امن و امان کی صورتحال کچے سے لے کر پختونخوا تک، افغانستان کے حالات کے اثرات پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں۔‘
’اس وقت کسی کو کوئی دلچسپی نہیں کہ عوام کتنے تکلیف میں ہیں۔ ان کو اندازہ نہیں اسلام آباد میں کیے گئے فیصلوں کا اثر کیا ہوتا ہے، ان فیصلوں کی وجہ سے تاریخی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پاکستان میں ہے۔ اس کا بوجھ ہر پاکستانی اٹھا رہا ہے۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا معاشی بحران کبھی نہیں آیا۔ معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کا اثر ہر گھر تک پہنچ رہا ہے۔ جو آج سمجھتا ہے کہ ان کے مخالف کے ساتھ کچھ ہو رہا ہے، انھیں سمجھنا چاہیے کہ کل ان کے ساتھ یہی ہوگا۔ کسی کو کوئی فکر نہیں کہ سیاسی عدم استحکام کس طرح ہمارے معاشی عدم استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔‘
ملک میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے واقعات پر انھوں نے کہا کہ ریاستِ پاکستان نے دہشتگردوں کو واپس یہاں آنے کی دعوت دی گئی اور انھیں فاٹا میں آباد کیا گیا۔ ان کے مطابق جو ہتھیار اور اسلحہ ایک زمانے میں امریکہ افغانستان میں طالبان کے خلاف استعمال کر رہا تھا اب طالبان کے پاس پاکستان میں وہی ہتھیار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دہشتگرد تنظیمیں جنھوں نے اے پی ایس پر حملہ کیا، انھیں شہریوں نے قربانیاں دے کر ختم کیا۔ دہشتگردوں میں صلاحیت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ سر اٹھا سکیں۔ ہم نے بطور ریاست فیصلہ کیا کہ جو قربانیاں ملک کے عوام نے دیں، اس پر سمجھوتہ کر کے انھیں دہشتگردی سے بات کی گئی، انھیں فاٹا میں آباد ہونے کی پیشکش کی گئی۔ (انھیں کہا گیا) کراچی میں بہت جگہ ہے، یہاں اپنا گھر بنائیں۔ جب ہم کابل جا کر چائے پی رہے تھے تب ہم نے سوچا ہی نہیں ہمارے فیصلے کے تنیجے میں پاکستان کو کیا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی کا اشارہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کی وہ تصویر تھی جو اس وقت بنائی جب غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی
بلاول بھٹو نے جنرل فیض حمید کے دروہ کابل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک میں دہشتگردی کا خاتمہ کرے گی۔ ’ہمارا مقابلہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں، ہمارا مقابلہ کسی سیاستدان سے نہیں۔ ہمارا مقابلہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے عمران خان یا شہباز شریف وزیر اعظم رہے تو انھوں نے اپنے حلقوں میں کیا کِیا۔ اگر آٹھ فروری کے الیکشن چوتھی بار اسی شخص کو ہم پر وزیر اعظم مسلط کیا جاتا ہے تو اس کا نقصان عوام اٹھائیں گے۔۔۔ آپ نے پیپلز پارٹی کو کامیاب بنانا ہے تاکہ عوامی راج ہو، نوجوانوں کی حکومت بنے نہ کہ پرانے سیاستدانوں کی پرانی حکومت ہو۔‘