پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) سے منسلک جارح مزاج کارکن طیبہ راجہ کو پارٹی کے دیگر کارکن پارٹی کی ’صنف آہن‘ خواتین کارکنوں میں شمار کرتے ہیں۔ طیبہ راجہ خود بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اپنے جیسی خواتین کارکنوں کو صنف آہن بتاتی رہی ہیں۔
جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو نو مئی کو ملک گیر احتجاج ریکارڈ ہوا جس میں طیبہ راجہ بھی لاہور سے شامل تھیں
نو مئی کے بعد پُرتشدد واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو پولیس نے دیگر کارکنان کے ساتھ انہیں بھی گرفتار کیا۔
صنم جاوید اور دیگر خواتین کارکنان کے ساتھ انہیں بھی جیل میں رکھا گیا جبکہ پے در پے سماعتوں میں انہیں قیدیوں والی وین میں عدالت لایا جاتا، جہاں بعض اوقات ان کی میڈیا سے بھی گفتگو ہوتی۔
کئی مرتبہ عدالتوں نے خواتین کارکنوں کی ضمانت منظور کی تاہم ان کی رہائی سے قبل ہی انہیں دوبارہ کسی دوسرے کیس میں گرفتار کیا گیا۔
اب طیبہ راجہ کی وکیل خدیجہ صدیقی نے ’ایکس‘ پر بتایا کہ ان کی مؤکلہ کی ضمانت ہوگئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کارکن طیبہ راجہ کی کور کمانڈر ہاؤس لاہور حملہ کیس میں ضمانت منظور کی۔
جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹر خدیجہ صدیقی اور ایڈووکیٹ مراد خان مروت عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ طیبہ راجہ ایف آئی آر میں نامزد نہیں تھیں۔ ایک ٹویٹ کی بنا پر طیبہ راجہ کو کیس میں نامزد کر دیا گیا۔ عدالت طیبہ راجہ کو درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرے۔ عدالت نے اس کے بعد طیبہ راجہ کی ضمانت منظور کر دی۔
طیبہ راجہ نو مئی احتجاج کے بعد مین سٹریم میڈیا پر سامنے آئی تاہم وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر خاصی متحرک تھیں۔ ان کے جارحانہ ٹویٹس کو پی ٹی آئی کے حلقوں میں خوب پذیرائی ملتی تھی۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد وہ سوشل میڈیا کی بجائے گراؤنڈ پر نکلیں اور عمران خان کے لیے احتجاج ریکارڈ کیا۔ اس حوالے سے ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔
ان کے ایک ٹویٹ کے مطابق انہیں پولیس نے گالیاں دیں تو انہوں نے اپنا دوپٹہ ان کے سامنے پھینکا۔ اس ویڈیو میں طیبہ راجہ اکیلی پولیس کی جانب جاتے ہوئے دیکھی گئیں جہاں پولیس نے انہیں پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔
اس کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا، ان کی اس ویڈیو پر مختلف حلقوں میں ان کی بہادری کو سراہا گیا۔ پھر ان کا ذکر ہر جگہ ہونے لگا۔
طیبہ راجہ کون ہیں؟
لاہور میں پیدا ہونے والی طیبہ راجہ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی لوگوں کے بقول انہوں نے سماجی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ان کے والد ایک میکینک ہیں۔
ان کے قریبی لوگوں کے مطابق انہوں نے سنہ 2013 میں عمران خان کی ایک ریلی میں شرکت کرنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور تب سے ایک توانا آواز کے طور پر متحرک رہیں۔
انہوں نے کئی بار پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن اور ریلیوں کا اہتمام کیا ہے۔ وہ خود کام کرکے گھر بھی چلاتی رہی اور عمران خان کے لیے سوشل میڈیا پر آواز بھی بلند کرتی رہیں۔ تاہم نو مئی کے بعد ان کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور یہ جیل کی کا کوٹھری میں محصور ہو کر رہ گئیں۔
صنم جاوید اور طیبہ راجہ کو 10 مئی کو پرامن احتجاج سے گرفتار کر کے ایم پی او کے تحت جیل بھیجا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 14 مئی کو انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تو انہیں رہا نہیں کیا گیا بلکہ مبینہ طور پر انہیں تین دن تک تھانہ چوہنگ میں رکھا گیا لیکن پولیس کی جانب سے اس کی تردید کی گئی۔
تین دنوں تک یہ منظر نامے سے غائب رہیں لیکن بعد میں انہیں کورکمانڈر ہاؤس کیس میں ڈال کر جیل بھجوا دیا گیا۔
25 مئی کو ان کا شناخت پریڈ شیڈول تھا لیکن شناخت پریڈ کینسل ہو گئی۔ یہ پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے گرفتار 123 ملزمان میں شامل رہی اور انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا رہا اور ضمانتیں بھی ہوتی رہی لیکن ان خواتین کارکنان کی رہائی ممکن نہ ہوسکی۔ آج بھی ان کی ضمانت کے بعد رہائی کے امکانات کم بتائے جا رہے ہیں۔
جیل سے خطوط
طیبہ راجہ جیل میں گزارے ایام کے دوران مختلف خطوط لکھ کر اپنے چاہنے والوں کو آگاہ کرتی رہی اور گزرے ایام پر ندامت کرتی رہی۔ ان خطوط کی تصدیق ان کی وکیل خدیجہ صدیقی نے اردو نیوز کو کی تھی۔
ایک خط میں طیبہ راجہ نے گھر اور ماں کو یاد کیا تھا۔ خط کے آغاز میں انہوں نے حفیظ جالندھری کا ایک شعر کچھ اضافی الفاظ کے ساتھ لکھا تھا۔ ‘دوستوں کو بھی ملے درد کی نعمت یارب‘
اس خط میں وہ خود سے گفتگو کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں ’ گھر، ہاں گھر یاد آتا ہے۔ماں..ماں یاد آتی ہیں۔‘
یہ دو جملے لکھتے ہوئے انہوں نے گھر اور ماں کے ساتھ دل بھی بنایا ہے۔
انہوں نے نو مئی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے حادثہ قرار دیا اور لکھا ’بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں زندگی میں، زندگی کبھی آسان نہیں رہی۔ ہمیشہ خود کو تسلی دی کہ زندگی کبھی کسی کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کرتی۔ کبھی شکر ادا کیا تو کبھی گلہ.. بس یوں زندگی گزرتی رہی۔ ایک تاریخ، ایک حادثہ جس نے زندگی بدل کر رکھ دی ہے، نو مئی 2023۔‘
وہ نو مئی واقعات پر اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ نو مئی حادثہ جان بوجھ کر یا کسی کے کہنے پر کیا گیا تو اس کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ان سب کو سچ اور صحیح دیکھنے کی توفیق عطا کرے۔ اللہ نے چاہا تو وقت بدلے گا، سب بدلے گا ۔ بہت دعا ہے، بہت اُمید ہے اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو روشنی ضرور ہو گی، یہی دعا ہے کہ سلامتی سے ہو، امن سے ہو۔‘
آخر میں انہوں نے دعا کی ہے ’خدا کرے اندھیرا جلد ختم ہو اور بہترین صبح ہو۔ جہاں ہمارے حقوق ، ہماری عزتیں ، ہماری رائے روندی نہ جا سکے۔ جہاں آزادی رائے ہو، جہاں عزت صرف چند خاندانوں اور چند عہدوں تک محدود یا حق نہ سمجھی جائے۔ جہاں اُمید باقی ہو۔‘