ن لیگ میں شین٬ ن٬ اور میم کی بحث جب سے پارٹی تشکیل پائی ہے تب سے جاری ہے۔ تاہم شہباز اور نواز دونوں بھائیوں کی سیاسی اپروچ میں 180 زاویئے کا اختلاف ہے جو کہ اس بحث کا ماخذ ہے۔ اب سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اس تقسیم سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قلم آرائی کی ہے۔
شہباز شریف اکیلے بھی ہوں تو مقتدرہ کے خلاف زبان تک نہیں کھولتے جبکہ نواز شریف ماضی میں مقتدرہ سے کئی بار لڑے اور کئی بار صلح کی۔ لڑائی کے عروج کے زمانے میں بھی شہباز شریف مقتدرہ سےمسلسل خفیہ رابطے میں رہتے تھے۔ یہ شہباز شریف کی خفیہ ڈپلومیسی ہی تھی جس کی وجہ سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے مخالف ترین زمانے میں نواز شریف کو جیل سے نکال کر لندن جانے دیا گیا، اس کے پیچھے سارے مذاکرات شہباز شریف نے ہی کئے اور پھر نوازشریف کی واپسی اور ان کے ری لانچ کی راہ بھی انہوں نے ہموار کی۔ دوسری طرف یہی شہباز شریف تھے جو جنرل مشرف کو چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف بنوانے والے تھے۔
یہ سفارش کرتے رہے کہ جنرل راحیل شریف کوتوسیع دے دیں لیکن نواز شریف نہ مانے، جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے بھی شہبازشریف متحرک رہے۔ نون کے متوالوں کو شہباز شریف سے گلے بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ پانامہ مقدمہ کے زمانے میں شہباز شریف کھل کر سامنے نہیں آئے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کلثوم نواز کو چھوڑ کر مریم نواز اور نواز شریف لاہور اترے تو شہبازشریف نے جلوس ایئرپورٹ لے جانے کی بجائے اسے مال روڈ پر ہی ختم کردیا یوں نواز شریف اور مریم کا استقبال ناکام ہوگیا اور وہ جیلوں میں چلے گئے۔ ماضی کے گلے شکوے بھی موجود ہیں۔ جنرل مشرف کے ساتھ چودھری نثار علی اور شہباز شریف کی جو ملاقاتیں ہوتی تھیں شہباز شریف ان میں سے کچھ نواز شریف کو نہیں بتاتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اگر سب کچھ بتائوں گا تو لڑائی ہو جائے گی اور مارشل لا لگ جائے گا جبکہ جدہ میں نواز شریف ،بھائی شہباز سے گلہ کرتے تھے کہ اگر آپ مجھے ساری باتیں بتاتے تو ہم اس کا بہتر حل نکال لیتے۔