لاہور میں عربی رسم الخط پرنٹ کیے ہوئے کپڑے زیب تن کرنے والی خاتون انتہا پسندوں کے نرغے میں آکر قتل ہونے سے بال بال بچ گئی۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق لاہور میں ایک خاتون کو کچھ افراد نے اس کے کپڑوں کے باعث یہ کہہ کر گھیر لیا کہ ان پر قرآنی آیات پرنٹ کی گئی ہیں اور یہ توہین رسالت ہے۔
واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ لاہور کی اچھرہ مارکیٹ میں پیش آیا، جہاں خاتون ایک ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھی ہوئی تھیں کہ ان پر اچانک یہ افتاد آپڑی۔
خاتون کے لباس پر عربی رسم الخط میں لکھے ہوئے الفاظ دیکھ کر آس پاس موجود افراد نے حقیقت جانے بغیر احتجاج اور خاتون کو دھمکانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاتون کے ارد گرد بہت بڑا مشتعل ہجوم اکٹھا ہوگیا۔
اس دوران خاتون انتہائی خوف کے عالم میں سہمی کھڑی رہی، جبکہ ان کے آس پاس کچھ افراد انہیں مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرتے رہے، تاہم ہجوم کی جانب سے مسلسل گستاخ رسول کی ایک سزا، سر تن سے جدا کے نعرے لگائے جاتے رہے جس سے ماحول سنگین صورت اختیار کر گیا۔
دریں اثنا کچھ لوگوں نے صورتحال کو قابو کرنے کیلئے پولیس بلا لی، جس پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر خاتون کو انتہا پسندوں کے ہجوم سے بچالیا اور انہیں اپنے ہمراہ لے گئی اور خاتون کو بحفاظت ان کے گھر بھیج دیا گیا۔
بعد ازاں خاتون کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے لباس میں قرآنی آیات پرنٹ نہیں تھیں، بلکہ عربی رسم الخط میں کچھ عربی الفاظ لکھے گئے تھے۔
دوسری طرف پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
اپنے بیان میں طاہر اشرفی کا کہنا تھاکہ لاہور میں ایک خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علماء کونسل اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ اس موقع پر اچھرہ پولیس کی کوششیں قابل تعریف ہیں تاہم خاتون سے معافی کا کہنا بلا جواز تھا، معافی ہراساں کرنے والوں کو مانگنی چاہیے۔