ڈان لیکس کوئی لیکس نہیں تھیں، پانامہ کی طرح کی خودساختہ کہانی تھی جس کا مقصد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے مدمت ملازمت میں توسیع کے لیے وزیر اعظم پر دباؤ ڈالنا تھا۔ جن لوگوں نے ڈان لیکس کا ایشو بنایا انہوں نے سوچا کہ جو بھی کسی غیر آئینی کام میں رکاوٹ بن رہا ہے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ڈان لیکس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ‘ ریجیکٹڈ’ کی ٹویٹ بھی کی گئی جس کے بارے میں میاں صاحب نے کہا کہ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہو کیونکہ یہ صرف ان کی نہیں بلکہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کی توہین تھی۔ یہ کہنا تھا مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا۔
سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے یوٹیوب چینل پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا خصوصی انٹرویو نشر کیا ہے۔ یہ انٹرویو اس وقت کا ہے جب 18 جولائی 2018 کو پانامہ لیکس کے تحت ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی اور مریم نواز خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے وطن واپس آ رہی تھیں۔ صحافی عاصمہ شیرازی نے مریم نواز کا انٹرویو وطن واپسی کے دوران ہوائی جہاز میں ریکارڈ کیا تھا تاہم، بااثر حلقوں کی جانب سے اس وقت اس انٹرویو کو نشر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
مریم نواز نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میں نے سفر کیے تھے جیسے 1999 میں جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد جلاوطن ہو کر پاکستان سے جانا اور پھر واپس آنا پڑا تھا۔ اس سفر اور اب کے سفر میں فرق یہ ہے کہ وہ میں نے ایک سیاسی لیڈر اور سابق وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر کیے تھے۔ میں تب بہت جذباتی تھی اور اپنے والد کے لیے رویا کرتی تھی۔ لیکن اب کا سفر ایک مقصد کے لیے ہے جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کبھی بھی وطن واپس جانا یا نہ جانا، مقدموں کا سامنا کرنا یا نہیں کرنا اور سزا کے لیے خود کو سرنڈر کرنا ہے یا نہیں کرنا، یہ مشکل فیصلے نہیں تھے۔ کیونکہ میاں صاحب یا میرے دماغ میں اس پر کوئی دو رائے نہیں تھی کیونکہ ان کا فیصلہ تھا کہ یہ کرنا ہے۔ لیکن اپنی ماں، کلثوم نواز، کو اس حالت میں چھوڑ کر آنا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ میری زندگی میں اس لحاظ سے یہ سب سے مشکل فیصلہ تھا۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے سوال کیا کہ آپ کو گھر میں سب ‘گڑیا’ کہتے تھے تو کیا گھر کی گڑیا اتنی مضبوط ہو گئی کہ وہ سزا کا، نامساعد حالات کا مقابلہ کر لے گی؟ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمیں امی سے ملنے کے لیے نیب کورٹ سے 4 دن کا حاضری سے استثنیٰ ملا تھا۔ ابھی جو فیصلہ آیا اس کے آنے کا تب تک کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ رات کو امی سے بات ہوئی تو انہوں نے ہمیں کہا کہ وہ ہماری منتظر ہیں۔ میں نے اور والد صاحب نے دوحہ سے لندن کے لیے فلائٹ لی۔ ہم ایک ایک گھڑی گن گن کر گزار رہے تھے کہ بالآخر ان سے ملاقات ہو گی کیونکہ کئی ہفتے اور مہینے گزر چکے تھے۔ اس دوران ان کی کیمو اور ریڈیو تھراپیز ہوئیں۔ ان کی طبیعت بھی بہتر نہیں تھی لیکن ہم نہیں مل سکے کیونکہ عدالت سے اجازت نہیں ملی۔ ہر بار استدعا مسترد ہو گئی۔ اس بار مل گئی اور عید کی چھٹیاں بھی تھیں۔
مریم نواز نے کہا کہ وہ بہت تکلیف دہ لمحہ تھا۔ اس کے بعد پورا مہینہ نہ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور نہ ہی ہوش آیا۔ ہم انہیں روزانہ آوازیں دیتے تھے، اسی امید میں کہ وہ پاکستان جانے سے پہلے ایک بار ہمیں دیکھ لیں لیکن وہ بے ہوش رہیں۔ اسی اثنا میں فیصلہ بھی آ گیا۔ کل جب ہم نے واپس آنا تھا تو انہوں نے آنکھیں کھولیں اور ان کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے۔ تو میں نے انہیں کہا کہ امی دیکھیں میں آپ کی وہی گڑیا ہوں جس کے بارے میں آپ کہتی تھیں کہ تمہارے آنسو پلکوں پر ہی رہتے ہیں۔ تمہارا دل چھوٹا ہے اور ہر بات پر رو دیتی ہو۔ اماں میں وہی مریم ہوں اور میں بہادر ہو گئی ہوں۔ اب مجھے رونا نہیں آتا، اس لیے اب آپ نے بھی نہیں رونا۔ مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے میری آواز سنی یا نہیں۔
جب فیصلہ آیا تو میرے والد صاحب نے کہا کہ میں واپس جاؤں گا، تم واپس نہ جاؤ۔ تو میں نے انہیں کہا کہ آپ یہ والد بن کر سوچ رہے ہیں، آپ کو نواز شریف بن کر سوچنا چاہیے۔ میں نہیں چاہتی کہ کبھی کوئی آپ پر یہ انگلی اٹھائے کہ آپ خود آ گئے تھے اور بیٹی چونکہ آپ کی کمزوری ہے اس لیے اس کو چھوڑ آئے۔ بیٹی کو اس مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ جنگ میں نے اور آپ نے ایک ساتھ لڑی ہے۔ اس کے لیے میں نے نقصان اٹھایا، بہت کچھ سہا بھی۔ اب چونکہ فیصلہ کن مرحلہ ہے تو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ یہ گڑیا سے مریم تک کا سفر تھا۔
صحافی نے سوال کیا کہ اگر اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب آپ وزیر اعظم ہاؤس میں تھیں اور ن لیگ کے کئی سینیئر لوگوں نے کہا کہ پارٹی کو نقصان مریم کی وجہ سے ہو رہا ہے، تو مریم کو اس تنقید اور محلاتی سازشوں نے مضبوط بنایا یا والد آپ کے رہنما تھے جن کی وجہ سے آپ مضبوط ہوئیں؟ وہ محلاتی سازشیں کیا تھیں؟ میاں صاحب کہتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟ عوام کو بتانا چاہتے تھے لیکن بتا نہیں سکے۔ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس وقت نئی مریم کو مضبوط بنانے میں تھوڑا تھوڑا سب کا کردار موجود ہے۔ لیکن میرے خیال میں زیادہ اثر ان 4 سالوں کا ہے جو میں نے میاں صاحب کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں گزارے۔ میں بہت ہی شائستہ اور نرم و نازک سی مریم تھی۔ پھر میں نے دیکھنا شروع کیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم جو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ غور کرنا، سمجھںا شروع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ کتنا غلط ہے۔ خاص طور پر جب ‘ ریجیکٹڈ’ کی ٹویٹ آ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ ہر کسی کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کے لیے وزیر اعظم سب سے آسان آسامی ہے۔ پنچنگ بیگ ہے، جو الزام آپ کسی پر نہیں لگا سکتے وزیراعظم پر لگا دو۔ عوام قطاروں میں کھڑے ہو کر ایک نمائندے کو ووٹ دیتے ہیں، منتخب نمائندے کو ملک کی باگ ڈور دی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ باقی سب ملک چلاتے ہیں۔ ہر موقع پر اس کی تذلیل اور تضحیک کی جائے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جواب میں کچھ نہ بولے کیونکہ اگر وہ بولے گا تو وہ غدار ہے۔