غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مین قرارداد منظور ہو گئی ہے۔ 15 رکنی سلامتی کونسل کے 14 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ امریکہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یہ قرارداد غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک امریکی قرارداد مسترد ہونے کے تین دن بعد منظور کی گئی ہے۔ امریکی قرارداد میں حماس پر بھی جنگ کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی۔
تاہم پیر کو منظور ہونے والی نئی قرارداد اس سے مختلف ہے۔ نئی قرارداد سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین نے پیش کی۔
امریکہ نے قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا جس پر اسرائیل سخت برہم ہے اور نیتن یاہو حکومت کے ایک وفد نے وائٹ ہاؤس کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔
قرارداد کی منظوری سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قرارداد کو ویٹو کر دے۔ تاہم امریکہ نے ایسا کرنے سے گریز کیا جس کی بدولت قرارداد منظور ہوگئی۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ رمضان المبارک کے دوران غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے جو بعد ازاں مستقل جنگ بندی پر منتج ہوگی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویترس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ اس قرارداد پر عمل ہونا چاہیے، ناکامی ناقابل معافی ہوگی۔
اقوام متحدہ میں امریکی مندوب لنڈا تھامسن نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ”ڈیل“ کو قبول کرے۔
ترجمان کا کہنا تھا امریکہ قرارداد میں موجود ہر بات سے اتفاق نہیں کرتا، اسی لیے اس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد میں کیا ہے
اقوام متحدہ کی قرارداد میں جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی دونوں مطالبات کیے گئے ہیں۔
قراراد میں کہا گیا ہے کہ رمضان میں فوری جنگ بندی کی جائے جو بعد میں پائیدار جنگ بندی پر منتج ہونی چاہیے۔
تمام یرغمالیوں کو غیرمشروط اور فوری طور پر رہا کردیا جائے اور ان کی طبی اور انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان تک رسائی دی جائے۔
تمام فریقین اپنی قید میں موجود افراد کے حوالے سے عالمی قوانین کے عمل درآمد کریں۔
’قراردادر پر عملدرآمد میں ناکامی ناقابلِ معافی ہوگی‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے زور دیا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جائے اور مزید کہا کہ اس میں ’ناکامی ناقابل معافی ہوگی‘۔
انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’سلامتی کونسل نے ایک طویل انتظارکے بعد ابھی غزہ کے بارے میں قرارداد کی منظوری دی ہے، جس میں فوری جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ ناکامی ناقابل معافی ہوگی‘۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے پاس موجود 7 ہزار فلسطینیوں کو رہا کرے۔
امریکہ کی مخالفت نہ کرنا اسرائیل سے اختلافات کی نشانی؟
امریکی تجزیہ کار جولین بورگر کا کہنا ہے کہ قرارداد کی مخالفت نہ کرنا نیتن یاہو حکومت کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کے اختلافات کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس اصرار پر کہ اسرائیلی افواج رفح حملے کے لیے آگے بڑھیں گی، یہ انسانی امداد کی فراہمی میں مسلسل اسرائیلی رکاوٹ پر واشنگٹن میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس قرارداد میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے باقی ماندہ عرصے کے دوران عارضی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایک ”دیرپا جنگ بندی“ کا باعث بنے گی
جولین کے مطابق امریکہ کی طرف سے کی گئی ترمیم میں روسی اعتراضات میں لفظ ”دیرپا“ کو ”مستقل“ سے بدل دیا گیا تھا۔ لفظ ”مستقل“ کو بحال کرنے کی روسی کوشش کو 11 ووٹوں سے شکست ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ پیر کی صبح آخری لمحات میں، امریکا نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک ترمیم کا مطالبہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں چیمبر فلور پر سفارت کاروں کی فوری ملاقاتیں ہوئیں، لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ ترمیم کی مخالفت ہوگی تو امریکہ نے مطالبے کو ترک کر دیا