گزشتہ روز شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی انجینئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں 5 چینیوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حملے کے وقت جائے وقوعہ پر عینی شاہدین اور ریسکیو اہلکاروں نے کیا دیکھا؟ اس حوالے سے اب برطانوی نشریاتی ادارے نے تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین کے بقول چینی انجینیئرز کی گاڑی کھائی میں گِرنے سے مکمل تباہ ہو گئی جبکہ جائے وقوعہ پر سڑک پر دوسری گاڑی کے بھی حصے بکھرے پڑے تھے۔
مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ واقعہ بشام سے تین کلو میٹر دور لاہور نالہ نامی سیاحتی علاقے میں ہوا۔ ان کے مطابق جو پولیس اہلکاروں میں سے تھے جو جائے وقوعہ پر پہنچے انہوں نے بتایا کہ چینی قافلے میں دو بسیں شامل تھیں اور سکیورٹی کی دو گاڑیاں ان کے آگے پیچھے تھیں۔
ایک عینی شاہد نے انھیں بتایا کہ وہ گھر پر نماز کی تیاری کر رہے تھے جب انھوں نے دو دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ گھر کے باہر آسمان کی طرف دیکھا تو دھواں ہی دھواں تھا اور لوگ نالے کی طرف بھاگ رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں جب وہ سڑک کی طرف آئے تو نالے میں گاڑی پڑی تھی اور گاڑی سمیت ہر طرف جھاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ’پھر پولیس آئی اور لوگوں کو ایک طرف کر دیا۔ ریسکیو والوں نے آگ بجھانے کا کام شروع کیا۔‘
ایک ریسکیو اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملنے کے 12 منٹ کے اندر ریسکیو حکام جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔’ہم جب نیچے کھائی میں اتر رہے تھے تو دو لاشیں راستے میں پڑی تھیں جبکہ چار لاشوں کو ہم نے گاڑی سے نکالا تھا۔ دو لاشوں کی شناخت ہو پا رہی ہے مگر باقی چار لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے جسم مکمل جل چکے تھے۔
انھوں نے دیکھا کہ ’سڑک پر ایک گاڑی کے پرزے بکھرے پڑے تھے۔ انجن کہیں پڑا تھا اور باقی پرزے دور دور گرے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس حملہ آور کی گاڑی ہو سکتی ہے جس میں بارودی مواد رکھا گیا ہوگا۔‘
ان کے مطابق وہ چھوٹی گاڑی جو بظاہر حملہ آور کی تھی، وہ بھی مکمل تباہ ہو چکی تھی جبکہ جائے وقوعہ پر ایک انسانی کان بھی پڑا ہوا تھا۔
یاد رہے کہ چین اور پاکستان دونوں ممالک نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسی حملے کے تناظر میں آج ایک اعلی’ سطحی سیکیورٹی اجلاس بھی بلا لیا ہے۔