پاکستان بھر کے 300 سے زائد وکلا نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو لکھے گئے ایک خط میں زور دیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت خفیہ اداروں کی طرف سے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کا نوٹس لے۔
اتوار کو پاکستان بھر سے 300 سے زائد وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ہائیکورٹ ججوں کے خط کے معاملے پر مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ ہے لہذا سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے۔
وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر اس معاملے کی سماعت کرے اور مفاد عامہ کے اس معاملے کی عدالتی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جب ججز کو منظم طریقے سے تھریٹ کیا جاتا ہے تو پورے نظام عدل پر اثر پڑتا ہے، اگر جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہمی میں آزاد نہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام اہمیت نہیں رکھتا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب ایسے الزامات لگائے گئے بلکہ اس سے قبل شوکت صدیقی نے بھی ایسے الزامات لگائے تھے۔ فوری اور شفاف انکوائری میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز عدلیہ کی آزادی کو مستحکم کرنے کے لیے اجتماعی لائحہ عمل طے کرکے فوری وکلا کنونشن بلائیں۔
وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو شفاف طریقے سے نمٹا کر عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے، شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے اس لیے سپریم کورٹ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور تمام ہائیکورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ آئندہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ مؤثر اور شفاف طریقے سے اس معاملے کو نمٹایا جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی پر حرف نا آئے
یاد رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو ایک چونکا دینے والا خط لکھا تھا جس میں ان کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں میں خفیہ نگرانی کے ذریعے ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کے بارے میں کہا گیا تھا۔
خط پر ججز محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور سمن رفعت امتیاز کے دستخط تھے۔
اس کے ایک دن بعد، مختلف حلقوں سے تحقیقات کے مطالبے سامنے آئے تھے اور اس پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔
سنیچر کو وفاقی کابینہ نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کے قیام کی منظوری دی جو الزامات کی تحقیقات کرے گا اور فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔