eade58a677c44a8c91a09caecb3b1ac9

سائفر کیس: سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت 16 اپریل تک ملتوی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر مقدمے میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گذشتہ روز کیس میں لگے الزامات سے متعلق آپ سے کچھ چیزوں پر معاونت طلب کی تھی۔ جس پر بیرسٹر سلمان صفد کا کہنا تھا کہ میری بحثیت وکیل ذمہ داری ہوگی کہ ہر اینگل آپ کے سامنے رکھ سکوں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے ریمارکس دیے کہ عمومی طور پر جب کوئی وکیل ہاتھی نکال دے تو دم نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پر یہ سیکشنز لگی ہوئیں ہیں آپ نے اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جب آپ رمضان میں کام کر رہے ہوں تو بندہ تھوڑا ایگزاسٹ ہوتا ہے، میری گزارش ہوگی کہ کسی ایک پارٹی کو عید سے پہلے عیدی ملنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق  نے ریمارکس دیے کہ عید ہونے نا ہونے کا اس میں کوئی معاملہ نہیں ہم نے قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں، جتنا وقت اپکو دیا ہے اتنا وقت ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ صاحب کو دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سائفر ڈی کوڈ ہوا، آٹھ کاپیاں تیار ہو کر مختلف لوگوں کو گئیں، وزیراعظم کا سیکرٹری کہتا ہے کہ میں نے وہ بانی پی ٹی آئی کو دے دی تھی، سیکرٹری کہتا ہے کہ بعد میں جب وہ کاپی دوبارہ مانگی تو گم ہو چکی تھی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ فائیو ون سی یا فائیو ون ڈی میں سے ایک میں ہی سزا ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ ون سی تو لاپرواہی ہے اور ون ڈی جان بوجھ کر گم کرنا ہے۔ بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ میں دونوں کے حوالے سے عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ون سی اور ون ڈی دونوں میں سزا ہوئی ہے ؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ بالکل دونوں میں سزا ہوئی ہے، عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ڈاکیومنٹ لاپرواہی اور جان بوجھ کر گم کرنے دونوں شقوں میں سزا سنائی گئی۔ اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ون سی اور ون ڈی دونوں میں تو سزا نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اعظم خان کا اس متعلق اپنا بیان کیا ہے؟ بیرسٹر سلمان نے عدالت کو بتایا کہ ون سی اور ون ڈی سے متعلق اعظم خان کے علاؤہ کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ الزام درست فرض بھی کر لیا جائے تو دو سال بھی سزا زیادہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں اس الزام پر دو سال سزا کا مطلب زیادہ سے زیادہ دو سال سزا ہے۔

سلمان صفدر نے دلایل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان کا سائفر واپس نہیں آیا تو سات ماہ کے بعد نوٹس کیوں دیا گیا، عمومی طور پر سائفر ایک سال تک کے عرصہ میں واپس آتا ہے، آپ نے ایک سال کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی کریمنل کیس بنا دیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ سیکرٹری جب وزیراعظم کو چیزیں شئیر کرتا ہے تو کیا وہ انفورمل ہوتا ہے ؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ دفتر خارجہ کو ایک سال کے اندر واپس کرنا ہوتا ہے، بانی پی ٹی آئی کو سات ماہ بعد ہی نوٹس کیسے کر دیا گیا؟ باقی کاپیز حالانکہ 17 ماہ بعد واپس آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایک لفظ سے کیس کو توڑیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سائفر کاپی بانی پی ٹی آئی کو سپردگی کے واحد گواہ اعظم خان ہیں؟ اعظم خان کا بیان نکال دیں تو سپردگی کا کوئی گواہ نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کس قانون میں ہے کہ سائفر ایک سال کے اندر واپس کرنا ہوتا ہے؟

وکیل بانی پی ٹی آئی سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ پراسیکیوشن کا یہ کیس ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ ایک سال ہے تو ایک سال خصوصی طور پر لکھا جانا چاہیے۔

سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے بیان میں کہا کہ وزیراعظم کی سائفر کاپی گم ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تو سہیل محمود ماسٹر کاپی لے کر گئے، سہیل محمود کے مطابق اعظم خان نے اُن سے سائفر کی نئی کاپی مانگی، سہیل محمود کہتے ہیں کہ میں نے کہا اپنی کاپی ہی ڈھونڈیں نئی نہیں ملے گی۔سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کی ورکنگ سے متعلق بُک موجود ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وہ بُک کونسی ہے؟

سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ وہ سیکرٹ ہے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں نا، آپ نام بتائیں۔وکیل سلمان صفدر نے انھیں بتایا کہ سیکیورٹی آف کلاسیفائیڈ میٹرزاِن گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بُک ہے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹاپ سیکرٹ ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ کاپی جج کے پاس تھی؟ جس پر سلمان صدر نے عدالت کو بتایا کہ جج کے پاس بھی نہیں تھی اور ہمیں بھی دکھانے نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کے کچھ سیکشنز تو ہم نے ضمانت کے فیصلے میں بھی لکھے ہیں۔

اس کے بعد سلمان صفدر نے سائفر ورکنگ متعلق سیکورٹی آف کلاسیفائیڈ میٹرز ان گورنمٹ ڈیپارٹمنٹ بک عدالت کے سامنے پڑھی تو سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹاپ سیکرٹ ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button