ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے واپس چلے گئے دونوں ممالک کی جانب سے اس دورے کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔
پاکستان اور ایران کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے ریمدان بارڈر پوائنٹ کو بین الاقوامی سرحدی کراسنگ پوائنٹ قرار دینے، باقی دو بارڈرز پر مارکیٹس کھولنے اور اقتصادی وتجارتی سرگرمیوں کیلیے بارڈر ٹریڈ میکنزم مکمل فعال کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا اور کہا کہ سرحدی غذائی منڈی مقامی باشندوں کی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان ایران مشترکہ سرحد’’امن اور دوستی کی سرحد ‘‘ہونی چاہیے اور مشترکہ سرحد کو ‘امن کی سرحد’ سے ‘خوشحالی کی سرحد’ میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
دونوں ممالک نے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون اور تبادلہ خیال کی اہمیت کا اعادہ کیا اور تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ سرحدی منڈیوں کے قیام اور ترقی پر مبنی اقتصادی منصوبوں پر بات کی گئی۔
پاکستان اور ایران میں توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا جس میں بجلی کی تجارت، ترسیل اور آئی پی گیس پائپ لائن پراجیکٹ شامل ہیں جب کہ اقتصادی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ چیمبرز کے وفود کے تبادلے کی سہولت پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تجارت کو 5 سالوں میں 10 بلین ڈالر تک بڑھانے پر، آزاد تجارتی معاہدے کو تیزی سے حتمی شکل دینے پر اتفاق اور سیاسی مشاورت ومشترکہ کاروباری تجارتی کمیٹی کے اگلے اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق جب کہ پائیدار اقتصادی شراکت داری، علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
پاکستان اور ایران نے روابط کے فروغ کیلیے جغرافیائی مقامات کو استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے تعلقات کو مضبوط کرنے کےعزم کا اعادہ کیا گیا۔
دونوں فریقین کا ٹی آئی آر کنونشن کےتحت سامان کی ترسیل میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور باہمی تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے کنونشن کو مکمل فعال کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا کہ کنونشن کو فعال کرنے سے ای سی او کے وسیع علاقے میں علاقائی انضمام اور رابطے میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان اور ایران نے گوادر، چاہ بہار کی بندرگاہوں میں باہمی فائدہ مند اور پائیدار روابط بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ساتھ ہی ایس سی او اور افغانستان رابطہ گروپ کی سرگرمیوں کو جلد شروع کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ ایس سی او اور ای سی او میں تعاون پورے خطے کی ترقی کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان اور ایران نے قیدیوں کی رہائی اور ملزمان کی حوالگی کیلیے 1960 کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
دہشتگردی کو خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک نے دہشتگردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ دہشتگردی علاقائی امن واستحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے علاقائی خودمختاری، سالمیت کو مکمل طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس خطرے کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے پر اتفاق کیا گیا اور سیکیورٹی ماحول کو بہتر بنانے کے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع میں اضافے کے کلیدی کردار کو تسلیم کیا گیا۔
اعلامیے میں مشترکہ چیلنجز پر مذاکرات، سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پُر امن حل کی اہمیت پر زور اور مسئلہ کشمیر کو خطے کے لوگوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
دونوں ممالک نے غزہ کی غیر انسانی ناکا بندی، فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئیں جب کہ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے۔
مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے فلسطینی عوام کی امنگوں پر مبنی منصفانہ اور جامع، پائیدار حل کیلیے مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محصور لوگوں تک بلا روک ٹوک انسانی رسائی، بے گھر فلسطینیوں کی واپسی اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے گئے جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے کے مطالبات بھی کیے گئے۔
اعلامیے میں دونوں ممالک نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ حملہ شام کی خود مختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی تھی اور اسکے استحکام وسلامتی کو نقصان پہنچاتی تھی۔
اس حملے کو عالمی قوانین، یو این چارٹر کی خلاف ورزی اور سفارتی تعلقات کے ویانا کنونشن کے تحت غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کی افواج کا یہ غیر ذمے دارانہ عمل پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں ایک بڑا اضافہ تھا۔ سلامتی کونسل اسرائیل کو مہم جوئی ،پڑوسیوں پرحملے،سفارتی تنصیبات کونشانہ بنانےکےغیر قانونی اقدامات سے روکے۔
پاکستان اور ایران نے اسلامو فوبیا، قرآن پاک سمیت مقدس نشانات کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ آزادی اظہار کے بہانے مذہبی منافرت کی وکالت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کو اکساتی ہو اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اعلامیے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد "اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات” کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلیے خصوصی ایلچی کی جلد تقرری کے ساتھ دیگر متعلقہ اقدامات کے نفاذ پر زور دیا گیا۔
اعلامیے میں ایران کی اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات سے متعلق قرارداد منظور کرانے پر پاکستان کی تعریف گئی اور کسی بھی ذریعے سے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے مشاورت اور تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔
دونوں فریقین نے دہشتگردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات سے پاک افغانستان کی ترقی کیلیے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کا وجود علاقائی اور عالمی سلامتی کیلیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا اور انسداد دہشتگردی، سلامتی پر تعاون بڑھانے، دہشتگردی کیخلاف متحدہ محاذ تیار کرنے پر آمادگی کا اعادہ کیا۔
پاکستان اور ایران نے افغانستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی فیصلہ سازی میں افغانوں کے تمام طبقات کی شرکت امن واستحکام کو تقویت دینے کا باعث بنے گی۔
واضح رہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دوران صدر پاکستان آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر کئی مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے جب کہ انہوں نے لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کیا۔