بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دور میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے ایک کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں خفیہ حراستی مراکز میں رکھے گئے سینکڑوں افراد میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔
جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ کم از کم نصف درجن بچوں نے اپنی ماؤں کے ساتھ بلیک سائٹ جیلوں میں مہینوں گزارے، ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو پوچھ گچھ کے دوران فائدہ اٹھانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جس میں انہیں دودھ دینے سے انکار بھی شامل تھا۔
ڈھاکہ نے 77 سالہ حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جن میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات بھی شامل ہیں، جو اگست 2024 میں طالب علموں کی قیادت میں ہونے والے انقلاب کے بعد بھارت فرار ہو گئی تھیں۔
حسینہ واجد کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس میں سینکڑوں سیاسی مخالفین کا ماورائے عدالت قتل اور سیکڑوں کا غیر قانونی اغوا اور گمشدگی شامل ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 2023 میں خواتین اور ان کے بچوں کے لاپتہ ہونے کے متعدد مصدقہ کیسز کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
اس میں ایک ایسے معاملے کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں ایک حاملہ خاتون کو اس کے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ حراستی مرکز میں پیٹا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کوئی اکیلا کیس نہیں تھا۔
کمیشن نے کہا کہ ایک عینی شاہد نے تفتیش کاروں کو حراستی مقام کا وہ کمرہ دکھایا جس میں اسے بچپن میں اس کی ماں کے ساتھ رکھا گیا تھا، جسے نیم فوجی ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) چلاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ان کی والدہ کبھی واپس نہیں آئیں۔
ایک اور واقعے میں ایک جوڑے اور ان کے بچے کو حراست میں لے لیا گیا اور بچے کو ‘نفسیاتی اذیت کے طور پر’ ماں کے دودھ سے بھوکا رکھا گیا تاکہ والد پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
جب حسینہ واجد کی حکومت اقتدار میں تھی تو انہوں نے جبری گمشدگیوں کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اغوا کیے گئے تقریبا 200 بنگلہ دیشی اب بھی لاپتہ ہیں۔
کمیٹی کے رکن سجاد حسین نے کہا کہ اگرچہ کچھ متاثرین ان افسران کی نشاندہی نہیں کر سکے جنہوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا ، لیکن ان کی شہادتوں کو ملوث فورسز کی شناخت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
حسین نے اے ایف پی کو بتایا، "ایسے معاملات میں، ہم کمانڈر کو جوابدہ ٹھہرانے کی سفارش کریں گے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرین کے خاندانوں پر اس کے اثرات کثیر الجہتی رہے ہیں جن میں شدید نفسیاتی صدمے سے لے کر قانونی اور مالی چیلنجز تک شامل ہیں۔