چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں صرف پی ٹی آئی کے سینیٹر عون عباس بپی پیش کیے گئے جبکہ انہوں نے جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کیے اور معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھیج دیا۔
چیئرمین گیلانی نے گزشتہ روز سینیٹرز بپی اور فواد چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ آج سینیٹ اجلاس میں ان کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
آج جاری ہونے والے ایک فیصلے میں گیلانی نے کہا: "پارلیمانی اختیارات کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس سے سینیٹ کی ادارہ جاتی سالمیت اور وسیع تر جمہوری فریم ورک کو خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری سے متعلق پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہ ہونے کا معاملہ غور و خوض اور رپورٹ کے لیے استحقاق کمیٹی کو بھجواتا ہوں۔
سینیٹر عباس کو پیش کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ ایک بار پھر سینیٹر اعجاز چوہدری سے متعلق ہدایات پوری نہیں کی گئیں، جو چیئرمین کے قانونی احکامات پر عمل نہ کرنے کے مترادف ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے احکامات کی نافرمانی سینیٹ 2012 کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 71 کے مطابق استحقاق کی خلاف ورزی ہے۔
گیلانی نے یاد دلایا کہ اکتوبر 1993 سے فروری 1997 تک قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے ان کے دور میں جب اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی تو وہ اس معاملے کو استحقاق کمیٹی کو بھیجنے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے میری واحد کوشش پارلیمنٹیرین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور آئینی احکامات کو برقرار رکھنا ہے۔
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید فواد چوہدری کے لیے گزشتہ روز جاری ہونے والا پروڈکشن آرڈر تیسرا تھا۔ پچھلے دو احکامات میں سے کوئی بھی نافذ نہیں کیا جا سکا۔
جنوری میں گیلانی نے پی ٹی آئی کے سینیٹر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے جو تقریبا 20 ماہ سے جیل میں ہیں تاکہ وہ 14 جنوری کو سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرسکیں۔ تاہم فواد چوہدری سینیٹ کے اجلاس میں پیش نہیں ہوئے جہاں حزب اختلاف کے قانون سازوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ سینیٹر کی تصاویر تھیں۔
چوہدری کو پہلی بار 11 مئی 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں امن عامہ برقرار رکھنے کی دفعہ 3 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایم پی او کے تحت ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں 25 مئی کو دوبارہ گرفتار کرکے لاہور لے جایا گیا تھا۔
سینیٹر بپی نے ملتان میں اپنی رہائش گاہ پر گرفتاری کی تفصیلات بتا دیں
گیلانی کے حکم پر ایوان میں پیشی کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر بپی نے 6 مارچ کو ملتان میں اپنی رہائش گاہ سے کی گئی اپنی گرفتاری کا بیان پیش کیا۔
جمعرات کو سینیٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کی جانب سے بپی کی گرفتاری اور مبینہ بدسلوکی کا معاملہ اٹھائے جانے پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے شدید احتجاج کیا تھا۔
بعد ازاں وزیر قانون نے ایوان بالا کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر کو بہاولپور پولیس نے چولستان میں چنکارا ہرن کے غیر قانونی شکار پر محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کی جانب سے درج مقدمے میں گرفتار کیا ہے۔
آج اپنی تقریر کے آغاز میں بپی نے گیلانی کے اصولی موقف پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے دونوں سینیٹرز کو آج ایوان میں پیش نہیں کیا گیا تو وہ کارروائی کی صدارت نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی رکن اسمبلی نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ان کے خلاف کچھ مشکلات اور ظلم کم ہونا شروع ہو گئے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جمعرات کو سینیٹ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا لیکن اس سے قبل ان کی دیگر مصروفیات کی منصوبہ بندی تھی۔ لہٰذا انہوں نے درخواست کی تھی کہ ایجنڈا نمبر 14 میں ان کی پیشی کو اگلے دن تک ملتوی کر دیا جائے۔
”اگر میں نے اجلاس میں شرکت کی ہوتی، تو یہ واقعہ [گرفتاری] نہ ہوتا اور میں یہاں بیٹھا ہوتا[…] لیکن ایسا ہوا کہ میں اس دن گھر پر تھا۔
بپی نے بتایا کہ تقریبا 20 لوگ 6 مارچ کو صبح 8:30 بجے کے قریب ان کے گھر آئے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا، ‘انہوں نے پہلے میرے سامنے کا دروازہ توڑا، پھر انہوں نے میرے تمام گھریلو ملازمین کو ایک جگہ باندھ دیا۔
قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کا نام لیے بغیر پی ٹی آئی کے سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ مشترکہ آپریشن کیا گیا اور ان کی فیکٹری پر بھی چھاپہ مارا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنے کمرے میں سو رہے تھے جب انہوں نے دروازے کو اتنی زور سے مارا کہ تالا ٹوٹ گیا اور وہ اندر داخل ہوئے۔
بپی نے کہا کہ ان کے موبائل فون مانگے گئے تھے لیکن چونکہ انہیں یاد نہیں تھا کہ انہوں نے انہیں کہاں رکھا تھا ، لہذا ان افراد نے دھمکی دی تھی کہ اگر آلات ان کے حوالے نہیں کیے گئے تو ان کے 16 سالہ بیٹے کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بیٹے کو اس وقت چھوڑ دیا گیا جب ایک گھریلو ملازم نے ان کا موبائل فون دیا۔
بعد ازاں عدالت میں پیشی کی تفصیل بتاتے ہوئے بپی نے کہا کہ اس کے بعد انہیں ایک روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ اپنے خلاف مقدمے کا موازنہ فواد چوہدری اور شہریار آفریدی کے خلاف درج پرانے مقدمات سے کرتے ہوئے انہوں نے شکار کے الزامات کو ‘قابل احترام ایف آئی آر’ قرار دیا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ ان کی غلطی جنوبی پنجاب میں مہنگائی کے خلاف مہم چلانا، عمران خان کے وفادار رہنا اور جیلوں میں بند پی ٹی آئی رہنماؤں کے لیے آواز اٹھانا ہے۔
یہ میری غلطیاں ہیں جن کی سزا میں نے دو دن تک بھگتی ہے اور مستقبل میں بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گیلانی نے آج جاری اپنے فیصلے میں کہا کہ بپی کے خلاف کیس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی جیسا کہ سینیٹ 2012 میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 79 کے تحت فراہم کیا گیا ہے، جو ‘طے شدہ پارلیمانی طریقہ کار کی صریح خلاف ورزی اور ادارہ جاتی پروٹوکول کو نظر انداز کرنے’ کی عکاسی کرتا ہے۔