حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ 29 نجی اور بعض سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر نظر ثانی کے ذریعے 3.5 ٹریلین روپے کی بچت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ رواں سال کے اختتام تک گردشی قرضے کم ہو کر 400 سے 450 ارب روپے رہ جائیں گے جو اس وقت 24 لاکھ روپے سے کم ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں پاور ڈویژن نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے منظور کردہ سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں نظر ثانی کو مزید غور و خوض اور نظر ثانی کے لیے واپس کر دیا ہے۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے اجلاس کو بتایا کہ حکومت کو ان 29 انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور گورنمنٹ پاور پلانٹس (جی پی پیز) کو ان ترامیم کے بعد تقریبا 3.498 ٹریلین روپے ادا نہیں کرنے ہوں گے جو ان کی تین سال سے 20 سال کی مدت کے دوران واجب الادا تھے، جس کا انحصار ان کے کمرشل آپریشنز کی اصل تاریخ پر ہے۔
ان میں 6 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کرنا اور 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت 14 دیگر کے ساتھ ترمیم اور 9 بگاس پر مبنی پلانٹس شامل ہیں۔
کابینہ نے سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی کا جائزہ لینے کیلئے واپس کر دیا، سینیٹ باڈی
اجلاس کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 38 ہزار میگاواٹ میں سے 12 ہزار میگاواٹ صلاحیت کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ حکومت کے 3200 میگاواٹ صلاحیت کے 6 پلانٹس پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے جبکہ پبلک سیکٹر میں مزید 15615 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پی پی اے میں ترمیم کا عمل رواں سال اپریل کے آخر یا مئی کے وسط تک مکمل ہوجائے گا۔
ایک عہدیدار نے اجلاس کو بتایا کہ آئی پی پی کے چھ معاہدوں کے خاتمے میں 411 ارب روپے کی بچت شامل تھی، 2002 اور 1994 کی پالیسیوں کے تحت 8 بگاس پر مبنی منصوبوں پر 238 ارب روپے کی لاگت آئی اور 14 دیگر آئی پی پیز نے 922 ارب روپے کی بچت فراہم کی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پبلک سیکٹر جنریشن کمپنیوں کے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے اور کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔ گڈو اور نندی پور کے دو پلانٹس کی گنجائش کی ادائیگی اور دیگر ذمہ داریوں میں مجموعی بچت پنجاب میں ایل این جی پر چلنے والے چار پلانٹس سے 355 ارب روپے اور 2.2 ٹریلین روپے ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ٹیرف میں ترمیم کے بعد اس بچت کا اثر صارفین پر پڑے گا جس کے بعد وزیراعظم باضابطہ اعلان کریں گے۔
سینیٹر شبلی فراز نے ٹیرف میں 8 روپے فی یونٹ کمی کے حوالے سے قبل از وقت بات چیت پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم وزیر توانائی نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹاف لیول معاہدے کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کی پالیسیاں درست سمت میں جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نظر ثانی شدہ معاہدے اس وقت ریگولیٹری پروسیسنگ میں ہیں اور باضابطہ اعلان سے قبل بچت کو سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) میں شامل کیا جائے گا۔
سینیٹر محسن نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 40 فیصد صنعتیں پہلے ہی بند ہو چکی ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) 20 فیصد بند ہونے کے دہانے پر ہے جس سے صرف 40 فیصد صنعتیں زندہ رہ سکتی ہیں۔
سولر نیٹ میٹرنگ پر گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سرمایہ کار درمیانی سطح کی پالیسی میں تبدیلیوں سے محتاط ہیں جس سے نئی سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔
گردشی قرضوں کے لیے 12 کھرب روپے کے قرضوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر توانائی نے کہا کہ یہ رقم موجودہ ڈیٹ سروسنگ سرچارج کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ عمل اگلے ماہ مکمل ہوجائے گا اور امید ظاہر کی کہ دیگر انٹرنل ایڈجسٹمنٹکے ساتھ اس سے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2.4 ٹریلین روپے سے کم ہو کر 400 سے 450 ارب روپے رہ جائے گا۔
کمیٹی نے تفصیلی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے ابھی تک ان منصوبوں کی شروعات کی تاریخ، حتمی قیمت اور پلانٹس کی مقامی مینوفیکچرنگ لاگت فراہم نہیں کی ہے۔