کوئٹہ کے علاقے ڈبل روڈ پر بریچ مارکیٹ میں پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بلوچستان کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے اور بعض معاملات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کا سامنا ہے۔
پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بتایا کہ دھماکے میں 3 لاشوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ 21 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زخمیوں میں سے چار کی حالت نازک ہے جبکہ زخمیوں میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے محکمہ صحت کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ زخمیوں کو سول اسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا کہ دھماکہ پولیس کی گاڑی کے قریب ہوا، دھماکے کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو فوٹیج، جس کی تصدیق Dawn.com نے کی ہے، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے مقام پر لوگوں کا ہجوم جمع ہے، جس میں ایک موٹر سائیکل کا جلتا ہوا ملبہ پولیس کے جلے ہوئے ٹرک کے ساتھ ہے۔ فریم میں ایک تباہ شدہ سوزوکی آلٹو بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ویڈیو میں ایک شخص موٹر سائیکل کے جلتے ہوئے ملبے کو گاڑی سے دور کھینچتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے جبکہ پس منظر میں سائرن کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔
ابھی تک کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اس طرح کے قابل مذمت اقدامات دہشت گردوں کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر زرداری زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے دو افراد کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
نقوی نے کہا کہ ہم مرنے والوں کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
دشمن کی افواج بلوچستان کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ہم عدم استحکام پیدا کرنے کی اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ کے بریوری روڈ پر سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں انسداد دہشت گردی فورس (اے ٹی ایف) کا ایک رکن شہید اور 6 زخمی ہوگئے تھے جن میں سے 3 کی حالت تشویش ناک ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور علیحدگی پسند عسکریت پسند اکثر پولیس اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے زیادہ جانی نقصان پہنچانے اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو براہ راست نشانہ بنانے کے لیے نئے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔
گزشتہ سال، وزارت داخلہ نے اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے "دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردی کے بدلتے ہوئے نمونوں” میں نمایاں اضافہ کا ذکر کیا، خاص طور پر کے پی میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں، بلوچستان میں بلوچ قوم پرست بغاوت، اور سندھ میں نسلی قوم پرست تشدد میں۔