بھارت کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ریاستوں کو ایک بڑے تنازعے کے قریب لا کھڑا کیا ہے، دفتر خارجہ
7 مئی کے میزائل حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو اکسانے کے سلسلے میں اسلام آباد نے جمعہ کو خبردار کیا کہ نئی دہلی کا ‘جنون اور جنگی جنون’ پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت کے لاپرواہی کے باعث دونوں جوہری طاقتیں ایک بڑے تنازع کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
بھارت نے بدھ کی علی الصبح پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر پر حملے کیے، جسے اسلام آباد نے ‘صریح جنگ کی کارروائی’ قرار دیا تھا، جب گزشتہ ماہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر مہلک حملے کے بعد جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔
اسلام آباد نے کہا کہ مساجد سے لے کر پن بجلی کے منصوبوں تک چھ پاکستانی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کو ‘ایک بڑے تنازعے کے قریب’ لا رہا ہے کیونکہ تین روز تک جاری رہنے والے میزائل، توپ خانے اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حملوں میں شہریوں، مساجد اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سمیت انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔
دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بھارت کے دعووں کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا اور پاکستان نے پہلگام واقعے کی غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کا اعادہ کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا اور من گھڑت پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر دفاع میں کارروائی کرے گا۔
پاکستانی سکیورٹی اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے متصل علاقوں میں بھارتی گولہ باری سے دو سالہ بچی سمیت پانچ شہری ہلاک ہوئے۔
کوٹلی ضلع سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار عدیل خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "اس کے جواب میں پاکستانی فوج نے ایک سخت جوابی حملہ کیا، جس میں تین بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
دریں اثنا، پاکستانی فوجی ذرائع نے بتایا کہ اس کی افواج نے گزشتہ دو دنوں میں 77 بھارتی ڈرون ز کو مار گرایا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ اسرائیلی ساختہ تھے۔
آزاد جموں و کشمیر کے مرکزی شہر مظفر آباد میں 15 سالہ محمد بلال نے کہا، "کشمیر کے نوجوان بھارت کی طرف سے بربریت کے اس عمل کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
اسکول بند
پاکستان نے نئی دہلی کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ گزشتہ ماہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا، جس میں مسلح افراد نے 26 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
جمعہ کے روز آزاد کشمیر، پنجاب اور مقبوضہ کشمیر میں اسکول بند رہے جس سے لاکھوں بچے متاثر ہوئے۔
بھارت نے بھی 24 ہوائی اڈوں کو بند کردیا ہے تاہم مقامی میڈیا کے مطابق سویلین پروازوں پر عائد معطلی ہفتے کی صبح ختم ہوسکتی ہے۔
اس تنازعے کی وجہ سے بین الاقوامی ہوا بازی میں بڑا خلل پڑا ہے اور ایئرلائنز کو اپنی پروازیں منسوخ کرنی پڑرہی ہیں یا طویل راستوں کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے جو پاک بھارت سرحد سے تجاوز نہیں کرتے۔
انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کرکٹ ٹورنامنٹ جمعہ کے روز ایک ہفتے کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے ایک دن بعد جموں سے 200 کلومیٹر (125 میل) سے بھی کم فاصلے پر دھرم شالا میں ایک میچ منسوخ کردیا گیا تھا، جہاں دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
دریں اثناء پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو جمعرات کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں بھارتی ڈرون حملے کے بعد متحدہ عرب امارات منتقل کردیا گیا تھا۔
کشیدگی میں کمی کا مطالبہ
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کشیدگی میں کمی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن "ایسی جنگ کے بیچ میں شامل نہیں ہونے جا رہا ہے جو بنیادی طور پر ہمارا کام نہیں ہے”۔
کئی ممالک نے ثالثی کی پیشکش کی ہے اور ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پاکستان کے دورے کے چند دن بعد جمعرات کو نئی دہلی میں اپنے ہندوستانی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی۔
سفارت کاروں اور عالمی رہنماؤں نے دونوں ممالک پر تحمل برتنے کا دباؤ ڈالا ہے۔
تاہم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ممکنہ کشیدگی میں اضافے کے انتباہ کے باوجود جنگ کے امکانات سے کسی حد تک لاتعلق ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز بیان بازی، داخلی احتجاج اور فوجی یکطرفہ کارروائی وں کی افسوسناک منطق نے کشیدگی میں اضافے کے خطرات کو بڑھا دیا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ کچھ عرصے سے فریقین کے درمیان کوئی سفارتی رابطہ نہیں تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ متحارب فریقین کو شہریوں کے تحفظ اور کسی بھی قسم کے مصائب اور ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔