eade58a677c44a8c91a09caecb3b1ac9

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار ٹیکس ریلیف پر معاہدہ طے پا گیا

حکام کا کہنا ہے کہ ہم نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے ٹیکس کے کچھ اقدامات تجویز کیے ہیں۔

 

اسلام آباد: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے مجوزہ ٹیکس ریلیف کے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

تاہم 14.2 ٹریلین روپے کے محصولات کے ہدف کو پورا کرنا ایک اہم چیلنج ہوگا، خاص طور پر رواں مالی سال کے لئے 12.33 ٹریلین روپے کے نظر ثانی شدہ ٹیکس وصولی کے ہدف کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے شارٹ فال کی روشنی میں۔

جمعے کی شب تفصیلی مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف حکام نے مختلف تنخواہوں کے سلیب میں انکم ٹیکس کی شرح وں میں کمی کی اصولی منظوری دے دی۔

واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کا اندازہ ہے کہ مجوزہ کٹوتیوں سے اگلے مالی سال میں 56 سے 60 ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے محصولات کے فرق کو پورا کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو معاوضہ انکم ٹیکس اقدامات متعارف کرانے ہوں گے۔

مذاکراتی ٹیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ہفتہ کے روز دی نیوز کو تصدیق کی کہ "ہم نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے ٹیکس کے کچھ اقدامات تجویز کیے ہیں تاکہ آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

عہدیدار نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے مجوزہ سلیب میں کمی پر ابھی تک مکمل طور پر کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے پہلے سلیب پر صرف ایک فیصد ٹیکس کی تجویز دی ہے جو 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے سالانہ تک ہے جبکہ موجودہ شرح 5 فیصد ہے۔

پہلے سلیب کے لیے 5 فیصد کی موجودہ ٹیکس کی شرح 30 ہزار روپے ٹیکس میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر ایک فیصد کی مجوزہ شرح پر اتفاق ہو جاتا ہے تو ایک لاکھ روپے تک کی آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے والی رقم 30 ہزار روپے سے کم کر کے 6 ہزار روپے کر دی جائے گی۔

آئی ایم ایف پہلے سلیب سے 1.5 فیصد ٹیکس کی شرح وصول کرنے پر زور دے رہا ہے لہٰذا اگر 1.5 فیصد ٹیکس لگایا گیا تو انہیں 9 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

بقیہ سلیب کے لیے تنخواہ دار طبقے کے ہر آمدنی سلیب میں 2.5 فیصد کی کمی کی تجویز ہے اور زیادہ سے زیادہ سلیب کی شرح 35 فیصد سے کم کرکے 32.5 فیصد کی جائے گی۔ تاہم ابھی تک پوری لاگت کا درست تخمینہ نہیں لگایا جاسکا ہے اور آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے درمیان مفاہمت نہیں ہوسکی ہے۔

10 فیصد سرچارج اور سپر ٹیکس کے نفاذ کے بارے میں پوچھے جانے پر ذرائع کا کہنا تھا کہ سرچارج اور سپر ٹیکس کو بھی بتدریج معقول بنایا جائے گا اور ٹیکس کی شرح وں میں کمی اگلے بجٹ سے شروع ہوگی۔

اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بجٹ ساز درآمدات پر مجوزہ ٹیرف ریشنلائزیشن پلان کے بارے میں فکرمند ہیں کیونکہ اگر وزارت تجارت اور نیشنل ٹیرف کمیشن کے تجویز کردہ منصوبے پر عمل درآمد کیا گیا تو اس سے 200 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔

یہ دلیل دی گئی ہے کہ ٹیرف میں کمی سے سست معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی ، جس سے محصولات کی وصولی میں اضافہ ہوگا۔ اگر یہ دلیل مان لی جاتی ہے تو آئندہ بجٹ میں محصولات کا خسارہ 150 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔

ایف بی آر کے اعلیٰ حکام بھی ٹیرف ریشنلائزیشن پلان سے پریشان تھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ جب بہت ساری درآمدی اشیاء پر ٹیرف کم ہونے جا رہے ہیں تو کسٹم حکام غلط اعلانات کو کیسے روکیں گے۔ اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ زیادہ ٹیرف والی اشیاء کو کم ٹیرف زمروں میں اعلان اور کلیئر کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ ایف بی آر کا ہدف غلط مفروضوں پر طے کیا جائے گا کیونکہ پہلے 11 ماہ میں محصولات میں شارٹ فال بڑھ کر 12 ہزار 970 ارب روپے کے اصل ہدف کے مقابلے میں ایک کھرب روپے سے زائد ہوگیا۔ اگرچہ آئی ایم ایف کی رضامندی سے ہدف کو کم کرکے 12 ہزار 332 ارب روپے کردیا گیا تھا تاہم 30 جون 2025 تک اس ہدف کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

ان حالات میں اگر آئندہ مالی سال کے لیے 14.2 ارب روپے کے ہدف کا تخمینہ 12 ہزار 332 ارب روپے کے غلط مفروضے کی بنیاد پر لگایا گیا تو ایف بی آر کا اگلا ہدف غیر حقیقی اعداد و شمار پر مبنی ہوگا۔

آئی ایم ایف نے وزارت توانائی اور اس کے ریگولیٹر نیپرا سے پیشگی منظوری لیے بغیر کرپٹو کرنسی کی کان کنی کے لیے 2 ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے پر بھی اعتراض ات اٹھائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button