جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ملکی سیاست کے خوشنما پردوں کے پیچھے متحرک کرداروں کے معاملات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ملک کے معروف صحافی جاوید چوہدری نے محمد زبیر کے شکوے کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے ن لیگ کے مرکزی رہنما محمد زبیر کے حوالے سے انکشافات کیئے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ جنرل باجوہ مریم نواز کے کتنے خلاف تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مجھے 2018 میں پارٹی چھوڑنے اور نئی حکومت میں اہم پوزیشن کی آفر ہوئی تھی‘ مجھے کہا گیا تھا ’’تم گورنر بھی رہ سکتے ہو اور نئی حکومت میں اہم پورٹ فولیو بھی لے سکتے ہو بس تم نے ایک پریس کانفرنس کرنی ہے لیکن میں نے صاف انکار کر دیا‘ میری بیوی نے بھی کہہ دیا تھا تم نے اگر یہ آفر قبول کی تو میں طلاق لے لوں گی‘ ہم لوگ شریف فیملی سے اتنے کمیٹڈ ہیں۔
میں نے پوچھا ’’کیا جنرل باجوہ کے کزن انجم نذیر وڑائچ آپ کے فیملی فرینڈ ہیں؟‘‘ زبیر صاحب نے جواب دیا ’’جی ہاں میرے ان سے 40سال پرانے تعلقات ہیں‘ میں جب بھی اسلام آباد آتا تھا ان کے گھر ٹھہرتا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ان کے ذریعے جنرل باجوہ سے ملتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’وہ بھی ایک سورس تھے مگر گورنر کی حیثیت سے میرے جنرل صاحب سے براہ راست تعلقات بھی تھے یوں میں 27اگست 2020 کو ان سے ملا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کیوں ملے؟‘‘
ان کاجواب تھا ’’میں میاں صاحب کا پیغام لے کر ان کے پاس گیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ملاقات کیسی رہی؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ملاقات کا دورانیہ چار گھنٹے تھا‘ میاں صاحب اور مریم نواز پر پابندی تھی‘ ان کی تصویر‘ آواز اور خبر تک میڈیا پر نہیں چلتی تھی‘ میں نے جنرل باجوہ کو سمجھایا‘ ریاست نے شیخ مجیب سے لے کر بے نظیر بھٹو تک یہ پابندیاں لگا کر دیکھ لیں‘کیا نتیجہ نکلا؟ صرف ملک کا نقصان ہوا‘ اس بار بھی ان پابندیوں کا صرف ملک کو نقصان ہو گا‘ جنرل باجوہ نے پوچھا‘ آپ بتائو کیا میں زیادہ پاپولر ہوں یا مریم نواز؟
میں نے جواب دیا‘ یہ فیصلہ آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہو گا‘ آپ ریٹائر ہونے کے بعد لاہور جائیں اور دوسری طرف سے مریم نواز آئیں‘ فیصلہ ہو جائے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اسٹیبلشمنٹ اس وقت مریم نواز کو سپیس دینے کے لیے تیار نہیں تھی؟‘‘ زبیر صاحب کا جواب تھا ’’یہ بات درست ہے جنرل باجوہ بار بار کہہ رہے تھے مریم نواز کی کوئی گنجائش نہیں اور میں جواب میں کہتا رہا‘ یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟
بہرحال میری کوشش رنگ لائی اور میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سپیس مل گئی‘ مریم صاحبہ کی خبریں چلنا شروع ہو گئیں اور 20ستمبر 2020کو پی ڈی ایم بن گئی‘‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا پی ڈی ایم آپ کے مذاکرات کا نتیجہ تھی؟‘‘ زبیر صاحب کا جواب تھا ’’ ہاں ایک وجہ یہ بھی تھی‘‘۔