eade58a677c44a8c91a09caecb3b1ac9

بابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کا افتتاح

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے معروف شہر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام ابھی مکمل تو نہیں ہوا ہے لیکن آج سوموار کو اس کا افتتاح پورے مذہبی رسم و رواج اور شان و شوکت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں جشن کا ماحول ہے اور جگہ جگہ تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔

اس افتتاح کو مذہبی اصطلاح میں ’پران پرتشٹھا‘ یعنی مندر میں نصب کی جانے والی مورتی (رام کے مجسمے) میں ان کی روح کو بلانے کا عمل کہا جا رہا ہے جسے عرف عام میں روح پھونکنے کا عمل کہہ سکتے ہیں جس میں سب سے آخر میں آنکھ کھولی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ یہ مندر تاریخی بابری مسجد کے سنہ 1992 میں شدت پسند ہندوؤں کے ہاتھوں انہدام اور انڈین سپریم کورٹ کے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلے کے تعمیر ہو رہا ہے۔

مندر کی افتتاحی تقریب کے سلسلے میں ہونے والی پوجا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ ملک کی میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس حوالے سے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

انڈیا کے عرب پتی تاجر مکیش امبانی نے اسے ملک بھر کے لیے خوشیوں کے تہوار ’دیوالی‘ سے تعبیر کیا ہے جبکہ اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ ’جو مورت (مجسمہ) اب تک پتھر کی تھی وہ تقدیس کے بعد اب خدا کا روپ دھار لے گی۔ جو لوگ اصولوں، رسم و رواج اور روایات کا احترام کرتے ہیں وہ بھگوان رام کے سب سے بڑے بھکت ہیں۔‘

اکھلیش یادو اس تقریب میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اس تقریب کی دعوت پر انھوں نے کہا ہے کہ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ساتھ رام مندر جائیں گے۔

بہت سے حزب اختلاف کے رہنما اس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی شمال مشرقی ریاستوں میں نیائے (انصاف) یاترا میں شریک ہیں تو مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سدبھاونا یاترا کے انعقاد کی بات کہی ہے۔

اس موقعے پر پورے ایودھیا میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ کے مطابق افتتاح کے موقعے پر ہونے والے تمام پروگرامز کی تیاریاں تقریبا مکمل ہو چکیں ہیں اور اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی ہے۔

اس مذہبی تقریب میں وزیر اعظم سمیت انڈیا کے تقریبا تمام اہم افراد وہاں موجود ہوں گے جن میں سادھو سنتوں سے لے کر کرکٹرز اور فلم انڈسٹری کے مشاہیر بھی شامل ہیں۔ کئی ریاستوں میں اس تقریب کو ٹی وی پر براہ راست دیکھنے کے لیے چھٹیوں کا بھی اعلان کیا گيا ہے۔

مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام کاج دوپہر ڈھائی بجے بعد شروع ہوں گے۔

سکیورٹی کے لیے دس ہزار سی سی ٹی وی کیمرے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت والے ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ جگہ جگہ پولیس اہلکار کو سادے لباس میں تعینات کیا گیا ہے۔

پران پرتشٹھا تقریب انڈین معیاری وقت کے مطابق دن میں 12 بجے شروع ہوگی اور ایک گھنٹے تک جاری رہے گی۔ اس مذہبی تقریب میں ہندو سادھو سنت کے ساتھ وزیر اعظم مودی بھی شامل رہیں گے۔ یہ تقریب ایک بجے تک جاری رہے گی اور اس کے بعد اسے عام لوگوں کے درشن یعنی اظہار عقیدت کے لیے کھول دیا جائے گا۔

رام جنم بھومی تیرتھ شیتر (زیارت گاہ) ٹرسٹ کے مطابق ہندوؤں کے بھگوان رام کی مورتی یا مجسمے کو 114 گھڑے پانی سے نہلایا جائے گا اور یہ پانی ملک کے طول و عرض کی مختلف زیارت گاہوں سے لائے گئے ہیں اور یہ جڑی بوٹیوں والے پانی ہیں۔

ٹرسٹ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کے لیے مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہیں اور مورتی کو درمیانی طور پر نصب کر دیا گیا ہے اور شب بیداری کا عمل شروع کر دیا گيا ہے۔ مندر میں مورتی نصب کرنے کے لیے پوجا ہو رہی اور جنوبی ریاست تمل ناڈو کے چنئی اور مغربی ریاست مہاراشٹر کے پونے سمیت کئی مقامات سے لائے گئے پھولوں سے اصول کے مطابق پوجا ہو رہی ہے۔

اس پران پرتشٹھا کی تقریب میں شامل ہونے والوں کے لیے پرشاد تقسیم کرنے کی تیاریاں بھی کئی گئی ہیں۔ ان تقریبات میں شامل ہونے والوں کے لیے مہاپرساد تیار کروایا گیا ہے اور اس کے 20 ہزار پیکٹ بنوائے گئے ہیں۔

مہاپرشاد خالص گھی، پانچ میوے، شکر اور بیسن سے تیار کیا گيا ہے۔ اس کے لیے پانچ ہزار کلو گرام سامان استعمال ہو رہے ہیں جبکہ 200 لوگ اس کی تیاریوں میں لگے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق رام جنم بھومی ٹرسٹ ہر دن پانچ ہزار سادھوؤں کو کھلانے کا انتظام کر رہا ہے جبکہ انھیں کمبل، تکیے اور بچھانے کی چادر پر مشتمل ایک کٹ دی جا رہی ہے۔

بہر حال جہاں اس تقریب سے کروڑوں ہندوؤں کے دلوں کو سکون حاصل ہو رہا ہے وہیں مسلمانوں کے لیے یہ ایک پرانے زخم کے کھلنے کے مانند ہے۔ معروف سیاسی مبصر پرتاپ بھانو مہتا نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے کہ ’لاکھوں کی تعداد میں سرگرم ہندوؤں کی شناخت، جذبات اور امیدیں، کم از کم اس موقعے پر ایودھیا کی طرف مرکوز ہیں لیکن اس طرح کے واقعے کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہ ایک فرق کو واضح کرنے والا لمحہ ہے۔ ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے بعد ہونے والی پران پرتشتھا، خالص اور سادہ طور پر ہندو مذہب کو سیاسی مذہب کے طور پر نشان زد کرتی ہے۔ یہ صرف ایک لمحہ نہیں ہے جب ریاست، جس نے اس کے پیچھے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی ہے، سیکولر ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ وہ لمحہ بھی ہے جب ہندو مذہب کا مذہبی ہونا بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘

ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد کا تنازع ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ مقام ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کا باعث رہا ہے اور دونوں فریق اس کی ملکیت کے دعویدار تھے۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی شمالی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں متنازع رام مندر کا سنگِ بنیاد 5 اگست 2020 میں رکھا۔

سنگ بنیاد رکھنے کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کی تعمیر کے مقام پر ’بھومی پوجا‘ میں حصہ لیا۔

انڈین وزیراعظم کی ایودھیا آمد کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھ اور اس تقریب میں چند ہی افراد کو شرکت کی اجازت ملی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دُنیا بھر کے متعدد ممالک سمیت انڈیا پر بھی کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔

مجوزہ مندر پر کام کرنے والے چیف آرکیٹیک چندرکانت سومپورہ نے مقامی نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مندر نگارہ سٹائل، جو کہ شمالی انڈیا میں مندروں کی تعمیر کے لیے مقبول سٹائل ہے، میں تعمیر کیا جائے گا۔

1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھی اموات کا ایک سلسلہ اپنے ساتھ لایا تھا اور ملک میں معاشرتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جس نے ہندوستانی جمہوریہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

2019 میں اگرچہ سپریم کورٹ نے تمام متنازعہ اراضی مندر ٹرسٹ کے حوالے کردی تھی لیکن عدالت نے ایودھیا تنازعہ کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد کا انہدام قانون و نظم کی بے انتہائی خلاف ورزی تھا اور عبادت گاہ کو منہدم کرنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ مسلمانوں کو غلط طریقے سے مسجد سےمحروم کیا گیاجو 450 سال پرانی تھی۔

سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے رام مندر کی تعمیر کے دعوے کو تسلیم کر لیا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ نے مندر مسجد کے اس تنازعے کا متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلم فریق کو ایودھیا کے اندر کسی نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے ایک متبادل پانچ ایکڑ زمین دی جائے۔ عدالت نے مرکز اور اتر پردیش کی ریاستی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس متبادل زمین کا انتظام کریں۔

بھگوان رام کی پیدائش سے منسوب اس مندر کی تعمیر پر 217 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ابھی تعمیرات کا کام جاری ہے۔ اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس مقام کو ہندو قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ’ہندو ویٹیکن‘ کہا جا رہا ہے کہ جس کی تعمیر کے لیے اس شہر کے بڑے حصوں کو منہدم کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کے سب سے متنازع مذہبی مقامات میں سے ایک پر 16 ویں صدی کی مسجد (بابری مسجد) کی جگہ مندر کا افتتاح کر کے دہائیوں پر محیط ہندو قوم پرستی کے وعدے کو پورا کریں گے۔ سنہ 1992 میں ہندو ہجوم نے بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا تھا کہ اسے مسلم حملہ آوروں نے رام مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد انڈیا میں شروع ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں لگ بھگ 2000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

نئے مندر کی تعمیر انتہائی دلفریب اور شاندار ہے۔ 70 ایکڑ کے رام مندر کمپلیکس میں مندر کا مرکزی حصہ 7.2 ایکٹر پر محیط ہے۔ یہ تین منزلہ مندر گلابی ریت کے پتھروں سے تعمیر کردہ ہے جس میں سیاہ گرینائٹ کے استعمال نے اسے چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس نئی عمارت میں بلند و بالا ستون ہیں اور یہاں 70,000 مربع فٹ سفید قیمتی سنگ مرمر بھی استعمال ہوا ہے۔ سنگ مرمر سے بنے ایک چبوترے کی چوٹی پر رام کی 51 انچ (4.25 فٹ) کی مورتی رکھی جائے گی۔

مندر کی طرف جانے والے 13 کلومیٹر (8 میل) رام پاتھ سمیت چار اہم سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لیے 3000 سے زیادہ گھروں، دکانوں اور ’مذہبی حیثیت رکھنے والے مقامات‘ کو یا تو مکمل یا جزوی طور پر مسمار کر دیا گیا ہے۔

نئے مندر کے ارد گرد اضافی پرکشش مقامات کی تعمیر کا بھی منصوبہ ہے، جس میں رام کی زندگی کی عکاسی کرنے والے 162 ایسے فن پارے نصب کرنا بھی شامل ہیں جو ان کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایودھیا کے سینیئر منتظم گورو دیال کہتے ہیں کہ ’ہم ایودھیا کو دنیا کا سب سے خوبصورت شہر بنانا چاہتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر رام مندر کی تقریب کے حوالے سے ’رام مندر پران پرتشٹھا‘، ’شری رام‘، ’جے شری رام‘، ’وراجو رام ایودھیا دھام‘، ’رام للا‘ ، ’ہندو‘، ’جے سیارام‘، ’دیوالی‘، ’پرو سندھیا‘، ’لارڈ رام‘ وغیرہ جیسے ٹرینڈز ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔

جہاں زیادہ تر لوگ مذہبی جوش و جذبے سے مغلوب ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے تاریخی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ بابری مسجد کو غلامی کی علامت بتاتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ 22 جنوری یاد گار دن ہے جو نسلوں تک یاد کیا جائے گا۔

بہت سے لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ 500 سال بعد اس سرزمین پر رام کی آمد ہو رہی ہے۔ جبکہ کچھ لوگ اسے ناقابل یقین قرار دے رہے ہیں۔

بہت سے لوگ اس تقریب کو دیوالی کے جشن جیسا کہہ رہے ہیں کیونکہ دیوالی وہ تہوار ہے جو 14 سال کے بن واس یعنی جلا وطنی کے بعد رام کے ایودھیا واپس آنے کی یاد میں خوشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

لوگ سوشل میڈیا پر پرانی اور نئی ویڈیوز ڈال کر اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے ديگر مقامات پر جاری تقاریب کی تصاویر اور ویڈیوز بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button