اس وقت ملک میں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر سہی٬ مگر شروع ہو چکی ہے۔ لیکن اس ماحول میں بے یقینی کا عنصر ہے کہ ختم ہوکر نہیں دے رہا۔ عوام٬ سیاستدان اور پارٹی قیادت سب کے سب ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آرہے ہیں کہ کیا اوپر بات ہوگئی ہے؟ ہوگئی ہے تو کیا طے ہوا ہے؟
اور کیا طے ہوا ہے اس کا جواب سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے تازہ کالم آزادوں کا میلہ میں ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ صورتحال، جو پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے اسکے پیچھے ہماری ریاست کی نت نئی بدلتی حکمت عملی ہے۔
جب نواز شریف نے لندن سے آنا تھا تو ریاستی حکمت عملی یہ نظر آ رہی تھی کہ سارا اقتدار و اختیار بائو جی کی جھولی میں ڈال دینا ہے، اس حد تک کہا گیا کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں دینا اور باقی سارے ریاستی انڈے بھی بائو جی کے ٹوکرے میں ڈال دینے ہیں۔
کچھ ہفتوں بعد سوچ میں پھر تبدیلی آئی، پیپلزپارٹی کو سندھ میں دبانے کی حکمت عملی بدل گئی اور کہا جانے لگا کہ سپلٹ مینڈیٹ آئے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری بنیں گے، اندازہ یہ لگایا گیا کہ 70 سے 80 نشستیں ن لیگ لے گی اور 50 سے 60 نشستیں پیپلزپارٹی لے گی یوں انکی مخلوط حکومت بنائی جائے گی۔