خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو کے مزید 2 کیسز سامنے آنے کے بعد رواں سال ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 52 ہوگئی ہے۔
پاکستان کا شمار افغانستان کے ساتھ دنیا کے ان آخری دو ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیو بدستور موجود ہے۔ وائرس کے خاتمے کی عالمی کوششوں کے باوجود، سلامتی کے مسائل، ویکسین سے ہچکچاہٹ اور غلط معلومات جیسے چیلنجوں نے پیش رفت کو سست کر دیا ہے۔
اسلام آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) میں پولیو کے خاتمے کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے پولیو وائرس ٹائپ 1 (ڈبلیو پی وی 1) کے مزید دو کیسز کی نشاندہی کی تصدیق کی ہے۔
لیبارٹری نے ڈی آئی خان سے کیسز کی تصدیق کی جہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی متاثر ہوئے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ بچوں سے جمع کیے گئے نمونوں کی جینیاتی ترتیب جاری ہے۔
جنوبی خیبر پختونخوا کے پولیو سے متاثرہ سات اضلاع میں سے ایک ڈی آئی خان میں رواں سال پولیو کے پانچ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
رواں سال ملک میں سامنے آنے والے 52 کیسز میں سے 24 کا تعلق بلوچستان، 13 کا سندھ، 13 کا خیبر پختونخوا اور ایک ایک کا تعلق پنجاب اور اسلام آباد سے ہے۔
منگل کے روز کے پی کے ضلع ٹانک سے سال کا 50 واں پولیو کیس سامنے آیا۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں 15 ماہ کے بچے میں اس سال کا 49 واں کیس سامنے آیا تھا۔
رواں ماہ کے اوائل میں صحت کے حکام نے اصرار کیا تھا کہ پولیو کے قطرے نہ پلانے والے بچے کے پی میں پولیو کے خلاف حکومت کی جنگ کی پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ 28 اکتوبر سے 3 نومبر تک گھر گھر جاکر انسداد پولیو مہم کے دوران والدین کے انکار یا بچوں کی گھر پر عدم دستیابی کی وجہ سے صوبے میں صرف 1.5 فیصد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے محروم رہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 30 اضلاع میں 63 لاکھ 80 ہزار بچوں میں سے 78 ہزار 355 بچے انسداد پولیو ٹیموں کے دورے کے دوران گھر سے غیر حاضری کی وجہ سے پولیو کے قطرے پلانے سے محروم رہے جبکہ 17 ہزار 479 بچوں کو والدین کے انکار یا ہچکچاہٹ کی وجہ سے پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تعداد تشویش کا باعث ہے کیونکہ پولیو کے خاتمے کے پروگرام کا مقصد تمام اہل آبادی کو حفاظتی قطرے پلانے کا ہے تاکہ بچوں کی اس بیماری کو ختم کیا جا سکے۔