eade58a677c44a8c91a09caecb3b1ac9

عالمی قرض دہندگان کا پاکستان کو قابل تجدید توانائی کے معاہدوں سے دور رہنے کا انتباہ

ڈی ایف آئیز کا کہنا ہے کہ غیر مشاورتی انداز میں پی پی اے پر دوبارہ مذاکرات شعبے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

بین الاقوامی قرض دہندگان کے اتحاد کی جانب سے حکومت پاکستان کو خبردار کیا گیا ہے کہ ونڈ اور سولر انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ یکطرفہ طور پر بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے اقدام سے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہوسکتا ہے اور مستقبل میں توانائی کے شعبے کی فنانسنگ متاثر ہوسکتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی)، کے ایف ڈبلیو، ایف ایم او اور اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ایس ڈی بی) سمیت ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئیز) نے اہم حکومتی وزراء کو بھیجے گئے ایک مشترکہ ڈی ایف آئی خط میں متنبہ کیا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے معاہدوں میں ترمیم میں قرض دہندگان کو نظر انداز کرنے سے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

ڈی ایف آئیز نے خط میں کہا کہ ‘ہمارا ماننا ہے کہ غیر مشاورتی انداز میں پی پی اے پر دوبارہ مذاکرات اس شعبے کی طویل مدتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوں گے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں گے اور مستقبل میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کریں گے’۔

یہ انتباہ انرجی ٹاسک فورس کی جانب سے 10 جنوری 2025 کو ڈی ایف آئیز کی مالی معاونت سے چلنے والے آئی پی پیز کے ساتھ پی پی اے پر نظر ثانی کی تجویز کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کے بعد سے حکومت نے مجوزہ تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کرنے اور ان کے نفاذ پر زور دینے کے لئے ہر آئی پی پی کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں۔

پاکستان کے پاور سیکٹر میں مجموعی طور پر 2.7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے قرض دہندگان نے متنبہ کیا کہ آئی پی پیز کو نئی شرائط قبول کرنے پر مجبور کرنے سے غیر ملکی سرمایہ کاری رک سکتی ہے، موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے اور ملک کے مالیاتی وعدوں پر اعتماد ختم ہوسکتا ہے۔

یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی حکومت، جو توانائی کے بگڑتے ہوئے بحران اور بڑھتے ہوئے مالی دباؤ سے نبرد آزما ہے، قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والوں کے ساتھ معاہدوں میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تاکہ بجلی کے نرخوں کو کم کیا جا سکے۔

تاہم قرض دہندگان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ معاہدوں کا احترام کرنا چاہیے اور کسی بھی تبدیلی کے لیے فنانسرز کی پیشگی منظوری درکار ہوتی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ فنانسنگ اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کی شرائط کے تحت جن آئی پی پیز کو ہم نے مالی اعانت فراہم کی ہے انہیں قرض دہندگان کی پیشگی تحریری منظوری کے بغیر پی پی اے سمیت کسی بھی بڑے منصوبے کی دستاویز میں تبدیلی پر رضامند ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

ڈی ایف آئیز نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کرے اور اس کے بجائے بجلی کے شعبے کے ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لئے "پائیدار اور منصفانہ نقطہ نظر” اختیار کرے۔

خط میں پالیسی کی خلاف ورزیوں اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بڑھتے ہوئے خدشات پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پہلے ہی سست روی کا شکار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button