اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس پی اڈیالہ جیل اور آئی جی اسلام آباد کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود جیل حکام پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید مشال یوسفزئی سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران حکام کو ہدایت کی تھی۔
ابتدائی طور پر آج کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونا چاہتے ہیں تو انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔ تاہم اگر بانی پی ٹی آئی کو دوپہر 2 بجے تک ویڈیو لنک کے ذریعے پیش نہیں کیا گیا تو انہیں سہ پہر 3 بجے ذاتی طور پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
دوپہر 2 بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سابق وزیراعظم کو عدالتی احکامات کے مطابق ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے بانی کو جیل سے لانا سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ممکن نہیں اور انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
عدالت نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور اٹارنی جنرل اسلام آباد کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے لاء کلرک سکینہ بنگش کو اڈیالہ جیل بھیجنے کے لیے کمیشن بھی تشکیل دے دیا اور بانی پی ٹی آئی سے تصدیق کی کہ یوسف زئی ان کے وکیل ہیں یا نہیں۔ کمیشن جس میں لاء کلرک بھی شامل ہے، کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کل (ہفتہ) خان سے ملاقات کرے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو اجلاس کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس پر یوسف زئی کا کہنا تھا کہ کمیشن کی تشکیل ان کے لیے سنہری موقع ہے۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ کمیشن پوچھے کہ کیا پی ٹی آئی کے بانی کو ان کے دوستوں سے ملنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
اس پر اسلام آباد کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکم کا تعلق وکلاء سے ملاقاتوں سے ہے، دوستوں سے نہیں۔
جسٹس سردار اعجاز خان نے ریمارکس دیے کہ یوسف زئی بطور وکیل عدالت میں پیش ہو رہی ہیں اور عدالت اسی کے مطابق درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔
قبل ازیں عدالت نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین کی رضامندی سے جاری کیے گئے عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا توہین عدالت کے مترادف ہے۔ گزشتہ سماعت میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ درخواست گزار کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔
جج نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیل حکام سے توقع ہے کہ وہ عدالت کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں عدالت کو یقین ہے کہ جیل حکام نے توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک فہرست پیش کی گئی تھی جو مبینہ طور پر بانی پی ٹی آئی کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اگر عدالت اس کی صداقت سے مطمئن نہیں ہے تو وہ براہ راست اس سے اس کی تصدیق کرے گی۔
جیل حکام سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کو مذاق میں بدل دیا ہے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی قیادت گزشتہ 5 ماہ سے ملاقات کرنے سے قاصر ہے۔ جسٹس سردار نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے استفسار کیا کہ کیا انہیں بتایا گیا ہے کہ انہیں کیوں طلب کیا گیا؟
سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے جواب دیا کہ وہ شہر سے باہر ہیں۔ جسٹس سردار نے استفسار کیا کہ گزشتہ جمعے کو اجلاس کیوں نہیں ہوا؟ جیل حکام کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی اس دن کسی سے ملنا نہیں چاہتے تھے۔
جج نے گزشتہ عدالتی حکم پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ یوسف زئی کو ملاقات کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں انتظار کیوں کرایا گیا۔
جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کہا تھا کہ یوسف زئی نہ تو ان کی وکیل ہیں اور نہ ہی ان کی فوکل پرسن ہیں۔
عدالت نے یوسف زئی سے ان مقدمات کے بارے میں پوچھا جن میں وہ پی ٹی آئی کے بانی کی وکیل ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں آپ کے کتنے مقدمات ہیں؟ اور ایک وکیل کے طور پر آپ کی حیثیت کیا ہے؟
دریں اثنا پی ٹی آئی کے بانی کی جانب سے مقرر کردہ 6 وکلاء کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی جس پر ان کے دستخط ہیں۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو ہر منگل کو ملاقات کی اجازت ہے۔